ایک مدت سے کھڑے ہیں ہاتھ پھیلائے ہوئے آپ کے دَر کو تصور میں ہیں ہم لائے ہُوئے
جی! کرم کی اک نظر ہو امتِ بے حال پر آگہی ہم کو عطا ہو ہر عدُو کی چال پر دُشمنِ دیں ہی ہماری جان کو آئے ہُوئے ایک مدت سے کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔
طے ہے یہ کہ آپ سا اس دہر میں کوئی نہیں بَر میں ناممکن ہے آقا بحر میں کوئی نہیں بس اسی پر امتی ہیں سارے اِترائے ہُوئے آپ کے دَر کو تصور میں ۔۔۔۔۔
آپ ہی کا آسرا ہو گا قیامت میں ہمیں ڈھانپ لیں گے ہے یقیں یہ اپنی رحمت میں ہمیں ورنہ جائیں گے کہاں ہم لوگ ٹھکرائے ہُوئے ایک مدت سے کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔
کب ہمیں ہو گا عطا دیدارِ طیبہ یا نبی کون سا دن ہو گا وہ اور کیسی ہو گی وہ گھڑی اب دلِ احسن ہے پَل پَل اس کو تڑپائے ہُوئے ایک مدت سے کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔
(احسان الٰہی احسن ۔ اٹک)