اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ
ہم اُٹھا بیٹھے ہیں اس شوخ کے دِیدار پہ حَلْف
ہم اُٹھا بیٹھے ہیں اس شوخ کے دِیدار پہ حَلْف
ہم اُٹھا بیٹھے ہیں اس شوخ کے دِیدار پہ حَلْف
جان دینے کے لیے اَبروئے خمدار پہ حَلْف
وعدۂ وَصل کیا اور قسم بھی کھائی
پھر جو کچھ سمجھے تو اِنکار اور اِنکار پہ حَلْف
رات بوسے تو نہ دیتے تھے مگر دیتے تھے
بوسہ بوسہ پہ قسم گریۂ خونبار پہ حَلْف
آپ کی آنکھوں نے بیمار بنایا ہم کو
ہو اگر شک تو رکھو نرگسِ بیمار پہ حَلْف
اس میں کیا بس ہے مرا کس لیے دیتے ہو مجھے
گرم نالہ پہ قسم آہِ شرر بار پہ حَلْف
وعدہ کیا شے ہے وہ خوبی سے اُڑا دیتے ہیں
ایک ہی ُجنبشِ اُبروئے ستم گار پہ حَلْف
اے نعیمؔ آج جو مشہور وفا دشمن ہیں
رکھتے ہیں عہدِ وفا کا وہ وفادار پہ حَلْف