اُجڑے ہوئے دیار کو عرشِ بریں بنائیں تو
اُجڑے ہوئے دیار کو عرشِ بریں بنائیں تو
اُجڑے ہوئے دیار کو عرشِ بریں بنائیں تو
اُن پہ فدا ہے دِل مرا ناز سے دل میں آئیں تو
چہرۂ پاک سے نقاب آپ ذرا اُٹھائیں تو
حسنِ خدا نما کی شان شانِ خدا دکھائیں تو
کشتۂ عشق سیدا آپ کے نام پر مرے
جلوہ انہیں دکھائیے آپ اگر جلائیں تو
دَرد و اَلم کے مبتلا جن کی کہیں نہ ہو دوا
دیکھیں وہ شانِ کبریا آپ کے دَر پہ آئیں تو
کرتے ہیں کس پہ کچھ ستم، کیوں ہو کسی کو رنج و غم
مولد مصطفیٰ کی ہم عید اگر منائیں تو
بد ہیں اگرچہ ہم حضور آپ کے ہیں مگر ضرور
کس کو سنائیں حالِ دل تم کو نہیں سنائیں تو
آپ کے در پہ گر نہ آئیں کون سا دَر ہے جس پہ جائیں
سامنے کس کے سرجھکائیں آپ ہمیں بتائیں تو
حال مرا تباہ ہے نامہ مرا سیاہ ہے
ہیچ مرا گناہ ہے آپ اگر بچائیں تو
دل کی مراد ان کی دِید دِید ہے ان کی دل کی عید
عید نہیں ہے کچھ بعید لطف سے گر بلائیں تو
صدمے فراق و ِہجر کے کس سے یہ غمزدہ کہے
تم ہی اگر کرم کرو دردِ نہاں سنائیں تو
رَفع ہیں فتح کے اَثر پیش ہیں کسر کے ضرر
زیر کو کیجئے زبر نصبِ عدد اٹھائیں تو
کرنے کو جان و دل فدا روضۂ پاک پر شہا
پہنچے نعیمؔ بے نوا آپ اگر بلائیں تو