نعت اکیڈمی
Logo
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ

رہے گی ناخنِ فرقت کی کب تک سینہ اَفگاری

رہے گی ناخنِ فرقت کی کب تک سینہ اَفگاری

رہے گی ناخنِ فرقت کی کب تک سینہ اَفگاری

کرے گی یاس تاکے زخم پر دِل کے نمک باری

بہیں گے دل کے ٹکڑے بن کے آنسو آنکھ سے کب تک

رہیں گے چشمِ پُر اَرماں سے کب تک اَشکِ غم جاری

یہ بے سامانیاں یہ ضعف اور یہ دُوریِ منزل

دِلِ بے صبر کی کب تک رہے گی ایسی ناچاری

شکستہ سی اُمیدیں زندگی کی کچھ معاون ہیں

کمر ہمت کی توڑے ڈالتی ہے اپنی ناداری

نہ کچھ حُسنِ عمل ہی ہے نہ کوئی مادّی ساماں

جو کچھ ساماں ہے تو چھوٹی سی تھوڑی گریہ و زاری

میں کس منہ سے کہوں مجھ کو بلالیجے مدینے میں

میں خود نادم ہوں آقا دیکھ کر اپنی سیہ کاری

کہاں مجھ سا کمینہ اور کہاں وہ بقعۂ طاہر

کہ جس میں جلوہ فرما ہیں حبیبِ حضرتِ باری

و لیکن کیا تعجب ہے اگر اپنی کریمی سے

کرے وہ رحمتِ عالم خطا کاروں کی ستاری

ذرا بھی چشمِ رحمت ہو تومٹ جائیں ُگنہ میرے

مرادیں سب بر آئیں نکلیں دل کی حسرتیں ساری

مَدینہ ہو یہ آنکھیں ہوں وہ سنگِ دَر یہ پیشانی

وہ آقا ہوں یہ بندہ ہو یہ دامن وہ گہر باری

یہ شیدا ہو وہ روضہ ہو یہ آنکھیں ہوں وہ جلوے ہوں

یہ طالب ہو وہ مطلب ہو یہ دل ہو اور وہ دلداری

زباں پر ہوں درودیں سر جھکا ہو ہاتھ پھیلے ہوں

مزہ ہو برسرِ جود و کرم ہو لطفِ سرکاری

زہے قسمت َگدا ہوں میں اسی سرکارِ عالی کا

عطا فرمائی جس کو حق نے سرداروں کی سرداری

ملے وہ اِنبساط و فرحِ رُوحانی و اِیمانی

دِلِ غم دِیدہ اپنا بھول جائے ِگریہ و زاری

تمنائیں مچلتی ہوں عطائیں لطف کرتی ہوں

دُعاؤں کی اِجابت کررہی ہو ناز برداری

وہ اَلطافِ کریمانہ ہوں وہ انعام شاہانہ

نعیمؔ الدیں کو دیکھیں دیدئہ حسرت سے درباری