نعت اکیڈمی
Logo
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ

نورِ نگاہِ فاطمۂ آسماں جناب

نورِ نگاہِ فاطمۂ آسماں جناب

نورِ نگاہِ فاطمۂ آسماں جناب

صبرِ دلِ خدیجۂ پاکِ اِرَم ِقباب

لختِ دلِ اِمامِ حسین اِبنِ بوتراب

شیرِ خدا کا شیر وہ شیروں میں اِنتخاب

صورت تھی انتخاب تو قامت تھا لاجواب

گیسو تھے مشک ناب تو چہرہ تھا آفتاب

چہرہ سے شاہزادہ کے اُٹھا ہی تھا نقاب

مہرِ سپہر ہوگیا خجلت سے آب آب

کا ُکل کی شام رُخ کی سحر موسمِ شباب

سنبل نثارِ شام فدائے سحر گلاب

شہزادۂ جلیلِ علی اکبرِ جمیل

بستانِ ُحسن میں گلِ خوش منظرِ شباب

پالا تھا اہل بیت نے آغوشِ ناز میں

شرمندہ اس کی نازُکی سے شیشۂ َحباب

صحرائے کوفہ عالمِ اَنوار بن گیا

چمکا جو رَن میں فاطمہ زَہرا کا ماہتاب

خورشید جلوہ گر ہوا پشتِ سمند پر

یا ہاشمی جوان کے رُخ سے اُٹھا نقاب

صولت نے مرحبا کہا شوکت تھی رَجز خواں

جرأت نے باگ تھامی شجاعت نے لی رِکاب

چہرہ کو اس کے دیکھ کے آنکھیں جھپک گئیں

دل کانپ اُٹھے ہوگیا اَعدا کو اِضطراب

سینوں میں آگ لگ گئی اَعدائے دِین کے

غیظ و غضب کے شعلوں سے دِل ہوگئے کباب

نیزہ جگر شگاف تھا اُس گل کے ہاتھ میں

یا اَژدَھا تھا موت کا یا اَسْوَئُ الْعِقاب

چمکا کے تیغ مردوں کو نامرد کر دیا

اس سے نظر مِلاتا یہ تھی کس کے دل میں تاب

کہتے تھے آج تک نہیں دیکھا کوئی جواں

ایسا شُجاع ہوتا جو اس شیر کا جواب

مردانِ کار لرزہ براَندام ہوگئے

شیر َافگنوں کی حالتیں ہونے لگیں خراب

کوہ پیکروں کو تیغ سے دوپارہ کردیا

کی ضرب َخود پر تو اُڑا ڈالا تا رِکاب

تلوار تھی کہ صاعقۂ برق بار تھا

یا اَزبرائے رَجمِ شیاطین تھا شہاب

چہرہ میں آفتابِ نبوت کا نور تھا

آنکھوں میں شانِ صولتِ سرکارِ بوتراب

پیاسا رکھا جنہوں نے انہیں سیر کردیا

اس ُجود پر ہے آج تری تیغِ زہر آب

میداں میں اس کے ُحسن و ہنر ؎ دیکھ کر نعیمؔ

حیرت سے بدحواس تھے جتنے تھے شیخ و شاب