اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ
قتیلِ َخنجرِ بیداد ہوں میں
قتیلِ َخنجرِ بیداد ہوں میں
قتیلِ َخنجرِ بیداد ہوں میں
فدائے ناوکِ صیاد ہوں میں
مجھی سے ہے جہاں میں نامِ اُلفت
حدیث عشق کی اِسناد ہوں میں
مصائب کے پہاڑوں کا نہیں خوف
کہ اپنے وقت کا فرہاد ہوں میں
نکالے چشمے اس بت کو رُلا کر
ترا اے کوہ کن استاد ہوں میں
میں یہ چاہوں کہ تم ہو خانہ آباد
یہ چاہو تم مروں برباد ہوں میں
یہ پایا آپ کی اُلفت کا ثمرہ
لگایا جب سے دِل ناشاد ہوں میں
چمن میں کس طرح میرا گزر ہو
اَسیرِ پنجۂ صیاد ہوں میں
کیا ایسا غموں نے مجھ کو رَنجور
کہ محوِ نالہ و فریاد ہوں میں
اَسیرِ عشق ہوں آزاد ہوں میں
غموں میں مبتلا ہوں شاد ہوں میں
یہ فیاضی کرم کر کرکے ہر بار
مجھی کو بھولتے ہیں یاد ہوں میں
مٹادی اس نے میری سرگرانی
رَہینِ منتِ جلاد ہوں میں
گل و نسریں پہ دل مائل نہیں ہے
فِدائے قامت شمشاد ہوں میں
نعیمؔ بے خطا پر یہ جفائیں
غنیمت ہے کہ ان کو یاد ہوں میں