اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ
کمالِ حُسن پردہ مستِ نازِ لااُبالی ہے
کمالِ حُسن پردہ مستِ نازِ لااُبالی ہے
کمالِ حُسن پردہ مستِ نازِ لااُبالی ہے
سنبھل کر اے دلِ مضطر ترا اللّٰہ والی ہے
ارسطو کیا کہ نبضِ عاشقاں پر ہاتھ رکھنے سے
فلاطوں خود گرفتارِ بلائے خستہ حالی ہے
نہیں کچھ سینہ کاوی چل دیا شاید کہیں دلبر
کہ دل پہلو سے غائب ہے ہمارا سینہ خالی ہے
یہ کس نے روند ڈالا لاشۂ بیکس کو قدموں سے
کہ آنکھیں کھل گئیں جاں آگئی کیا پائمالی ہے
پھلیں نخل و شجر گلزارپھولیں چشمے ہوں جاری
برس اے چشمِ خوں اَفشاں جہاں میں قحط سالی ہے
فنا ہو اس میں جس کو ہو نہیں سکتی فنا ہرگز
یہ ہستی جس پہ تو مفتوںہے تصویر خیالی ہے
ہنر ہی سے جہاں میں آدمی کی قدر ہوتی ہے
نعیمِؔ بے ہنر مشہور تیری بے کمالی ہے