زہے بخت مل جائے وہ آستانہ جہاں جھک گئی ہے جبین زمانہ
جہاں کا مکیں ہو مرا کملی والا وہیں پر الٰہی ہو ختم فسانہ
نہیں ہوں طلب گار انداز زاہد ہمارا ہو ہر اک قدم حیدرانہ
فلک کو بھی روند آئے میرا نصیبہ تراگر اشارہ ہو شاہِ زمانہ
فراق محمدﷺ میں آنسو بہا کر مجھے آگیا دائمی مسکرانہ
ترے دست پہ چشم تشنہ لباں ہے ادھر ساقیا جامِ رنگیں بڑھانا
ترے اک اشارے پہ ہو جائے آساں خطر ناک طوفان سے کھیل جانا
زباں ہے میری خوگر نعت احمد یہی ہے ہمارے لبوں کا ترانا
اے اخؔتر چلے آؤ طیبہ کی جانب خدا کا کرم چاہتا ہے بہانہ